٭ نازش ہماقاسمیNAZISH HUMA
ابتلائے آزمائش ہوں تو اوروں کی چیخ نکلے
یہ مسلماں ہیں جو سہتے جارہے ہیں فسادوں پہ فساد ابتک
آزادی کو 66سال کا عرصہ بیت گیا مگر مسلمانوں کی حالت میں کوئی سدھار نہیں آیا… ان کی حالت مزید دگرگوں ہوتی گئی… ان کی حالت کو سدھار نے کے بجائے اسے فسادات کی آگ میں جھونکا گیا… ان کو ہمیشہ جانی ومالی طور پر نقصانات سے دوچار کیاگیا… اور سلسلہ دراز ہوتا ہی گیا۔
سوال یہ ہے کہ ہندوستان کے تمام فرقہ وارانہ فسادات میں صرف مسلمانوں کا ہی کیوں نقصان ہوتا ہے۔ صرف مسلمانوں کی ہی مائوں بہنوں کی عصمت سے کھلواڑ کیوںکیاجاتا ہے… اور فسادات کے بعد مسلمانوں سے ہی کیوں سیکولرازم کی پاسداری کی امیدیں کی جاتی ہیں۔ اس طرح کے مظالم ڈھاکر کیوں مسلمانوں سے ملک محبت کی امیدیں کی جارہی ہیں۔ اور ستم بالائے ستم یہ کہ مسلم تنظیمیں مسلمانوں کو ہی صرف امن وامان اور صبر کی تلقین کیوں کرتی ہے؟ کیوں حکومتیں اور ایجنسیاں مسلمانوں کو ہی نظر میں رکھے ہوئے ہے۔ جدھر دیکھو مسلمانوں کے ساتھ برادران وطن نبرد آزما ہیں۔ کبھی 92کا فسادت ہوتا ہے … کہیں مسجد کو مسمار کیاجارہا ہے… کبھی گجرات کا داغ دیا جاتا ہے تو کبھی آسام میں تہہ وتیغ کیاجارہا ہے… کبھی خواجہ یونس کو غائب کردیاجاتا ہے… کبھی خالد مجاہد کو موت کے گھاٹ اتا ر جاتا ہے تو کہیں ڈی ایس پی ضیاء الحق کا قتل کردیا جاتا ہے … کبھی عشرت جہاں کو فرضی انکائونٹر میں مار گرایاجاتا ہے۔ آخر یہ مظالم مسلمانوں کے ساتھ ہی کیوں برتا جاتا ہے ۔ ملک میں اور بھی بہت ساری اقلیتیں ہیں ان پر یہ مظالم کیوں نہیں ڈھائے جارہے ہیں۔ تو ان کا جواب یہ ہے کہ اور بھی بہت ساری اقلیتیں جو ہیں ان کی تنظمیں اور ان کے افراد مستعد وچاک وچوبند ہیں ۔ انہیں اپنی قوم کی سلامتی کی فکر ہے … صرف مسلمانوں کی ہی تنظمیں نام ونمود کیلئے کام کرتی ہے… جھوٹ کے ڈھنڈورے پیٹتی ہیں … کوئی ایسا لائحہ عمل نہیں ہے ان کے پاس جن سے وہ فسادات پر قابو پانے کیلئے حکومت کو مجبور کرسکیں… یہ تنظیمیں حکومتی اہلکاروں کو کبھی میمورنڈم دیتی ہے تو کبھی سپاس نامہ پیش کرتی ہے۔ کبھی کہتی ہے کہ گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا انہیں اس کا معاوضہ دیاجائے ۔ کبھی کہتی ہیں آسام فسادات میں مسلمانوں کے خون سے ہولیاں کھیلی گئی ہیں انہیں آباد کیا جائے۔ کبھی کہتی ہے کہ مظفر نگرفسادات میں 40ہزار مسلمان بے گھر ہوئے سینکڑوں موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے انہیں اس کا معاوضہ دیا جائے۔ سوچنے کی بات ہے کیا مسلمانوں کا خون اتنا ارزاں ہوگیا ہے کہ اس کا بدل معاوضہ ہے۔ ابھی حال ہی میں آسام فساد ہوا بوڈو اسلحہ برداروں نے مسلمانوں کے خون سے رنگ رلیاں منائیں، حکومتیں بے بس… مسلم تنظمیں اپنی نام نہاد جدوجہد میں مصروف… اور ان فسادات میں کبھی مالیگائوں کی 500مساجد میں مظلومین کیلئے دعائیں کرائی جارہی ہیں کہ ان پر فساد نہ ہو… کیا ان دعائوں سے فساد ٹل سکتا ہے… اگر دعا کے بجائے دوا سے کام لیا جاتا … کاش ان پانچ سومساجد سے دعا کے بجائے آسامی مسلمانوں کی حفاظت کیلئے افراد نکلتے… ان کو مظالم سے بچانے کیلئے ظالم کے ہاتھ توڑنے والے افراد آسام جاتے ۔ لیکن نہیں کیوں وہ ایسا کریں ان کی دعائوں میں اتنی تاثیر ہے کہ وہ آسماں سے بنا بارش کے موسم میں خدا کو بارش کیلئے مجبور کردیتے ہیں … اسی لئے وہ 66سال سے دعا کرتے آرہے ہیں اور ان کی دعائیں مقبول بھی ہوتی نظر آرہی ہیں ہر جگہ مسلمانوں کو فسادات کی آگ میں جھلستا
دیکھ کر۔ اپنی مائوں بہنوں کی عصمت وعفت کو تار تار ہوتے دیکھ کر… اپنے قابل اور لائق وفائق بچوں کو جیل کی سلاخوں کے اندر پستے دیکھ کر… اپنی مساجد کو مسمار ہوتا دیکھ کر۔
محمد بن قاسم رحمتہ اللہ علیہ صرف ایک فاطمہ کی آواز پر وہ فاطمہ جو راجہ داہر کی قید میں تھی اس کی بازیابی کیلئے اپنے سرفروشوں کے ساتھ 17سال کی عمر میں ہندوستان کی اینٹ سے اینٹ بجادیتے ہیں۔ محض صرف اپنی بہن کی عصمت وناموس کی حفاظت کیلئے لیکن یہاں ہزاروں بہنیں ہردن ہر لمحہ اپنی عصمتیں کھو رہی ہیں لیکن آج کوئی بھی مسلمانوں میں خالد بن ولیدؓ یا محمد بن قاسم ؒ نہیں ہے جو ان ظالموں کے پنجوں سے اپنی بہنوں کو بچائے۔ کبھی گجرات میں ماں کے پیٹ کو چاک کیاجاتا ہے تو کبھی آسام …میںتو کبھی کشمیر میں عصمت دری کا گھنائونہ کھیل کھیلا جاتا ہے مسلم دوشیزائوں کے ساتھ لیکن ہماری بے غیرتی کہ ہم دیکھتے رہتے ہیں اور سوچتے رہتے ہیں کہ ہم کیوںان کی مدد کو جائیں میری بیٹیاں تو محفوظ ہیں ہم کیوں اس چکر میں پڑیں۔ یاد رکھیں ایک وقت عنقریب آنے والا ہے اگر اسی طرح کی بے غیرتی کا مظاہرہ کیا گیا تو پورا ہندوستان فرقہ پرستی کی آگ میں جھلس رہا ہوگا… اور شاید دوسرا اندلس بھی یہ ثابت ہوجائے… کیوں کہ اندلس میں بھی ان سیاسی علماء کی وجہ سے آج اسلام نہیں ہے کہیں ہندوستان میں بھی ایسا ہی نہ ہوجائے کیوں کہ یہاں کے علماء بھی اب موقع پرست ہوگئے ہیں۔ انہیں اپنی فکر ہیں قوم کی کوئی فکر نہیں رہ گئی۔ ا گر انہیں کوئی فکر ہوتی تو وہ محض میمورنڈم …احتجاج… سپاس نامہ… اخبارات میں بیان دے کر خاموش نہیں ہوجاتے بلکہ ایسا لائحہ عمل تیار کرتے جس سے اپنی مائوں کی بہنوں کی عصمت وعفت کی حفاظت کی جاتی …جس سے نہ مساجد پہ مسمار ہوتی اور نہ ہی مسلمانوں کے علاقے فسادات کی آگ میں جھلستے… لیکن یہاں ایسا دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے بس وہ اسی میں مگن ہیں کہ آج ہمارے نام کی اخبار میں بڑی سرخی لگ گئی ہے… وہ اسی میں خوش ہیں کہ ہم نے فسادات کے تعلق سے حکومت کے کانو ں میں آواز پہنچا دی ہے… ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ یک جٹ ہوکر حکومت کے ایوان کو ہلادیتے … کہ کیوں ہمیں ستایاجارہا ہے… کیوں ہمیں فسادات کے ذریعہ جان ومال سے کمزور کیاجارہا ہے… کیوں ہمیں ہندوستان میں دوسرے درجہ کا شہری بننے پرمجبور کیا جارہا ہے… لیکن ایسا کچھ نہیں بس وہ اپنے کام میں مگن ہیں اور قوم اپنے علماء کی بداعمالیوں کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔
اگر ہمارے علماء، دانشوران، اسی طرح بے حسی کا مظاہرہ کرتے رہے تو آئندہ آنے والے ایام میں انہیں بھی اور قوم کوبھی خطرناک نتائج بھگتنے ہوں گے۔ لہذا وقت ہے ایک دوسرے کے پاسباں بن کے چلیں۔ اپنی قوم کی حفاظت کیلئے میدان میں اتر جائیں۔ جان کی بازی لگادیں… کوئی بھی فاطمہ اب بے آبرو نہ ہونے پائے ان غلیظ کافروں سے… اس کے لئے اپنے اندر غیرت پیدا کریں… غیر ت نام کی ہمارے اندر کوئی چیز باقی نہیں رہ گئی ہے۔ کافروں کا سب سے بڑا ہتھکنڈہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر سے غیرت ختم کردو اور وہ اس میں بہت حد تک کامیاب ہوگئے ہیں۔ آج ہم خود اپنی ماں بہنوں کو بیہودہ کپڑوں کی زینت بنانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ آج خود ہمارے گھروںمیں ٹی وی بیہودگی کو فروغ دینے کا آلہ ہے۔ جب تک ہم ان بیہودہ چیزوں کو دور نہیں کریں گے ہمارے اندر غیر ت نہیں آئے گی اور جب تک غیرت نہیں ہوگی ہمیں پھر لاکھ ہماری قوم کے افراد کی ماں بہنوں کی عصمتیں لٹے ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگنے والی۔